۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
زیارت امام رضا

حوزہ/ ہمارا عقیدہ ہے کہ ائمہ معصومین  خدا کی دی ہوئی قدرت کے تحت بیماروں کو شفا یاب کر سکتے ہیں اور  اس طرح کے بہت سے واقعات دیکھے بھی گئے ہیں لیکن یہ عقیدہ اپنی جگہ ہے جبکہ قدرتی مسائل سے نمٹنے کی ذمہ داری اپنی جگہ ہے؛  لہذا اس عقیدہ کی بنیاد پر قدرتی مسائل سے نمٹنے کی ذمہ داری سے غفلت برتنا صحیح نہیں ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

سوال: ہمارا عقیدہ ہے اور اسی عقیدہ پر زندگی گزار رہے ہیں  کہ معصومین علیھم السلام  کے ساتھ توسل سے ہر بیماری سے نجات مل سکتی ہے اور اُن  کے حرم، بیماروں کے لئے شفا خانے ہیں لیکن اب کرونا وائرس اور اس وبائی بیماری  کے ڈر سے تمام مقدس مقامات کو عام لوگوں کے لئے بند کر دیا گیا ہے، تو کیا ان مقدس مقامات کی بندش ہمارے عقیدے  اور نظریے کے ساتھ منافی نہیں ہے؟
جواب: ہم جس دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں یہاں عام طور سے  پروردگار کی طرف سے  علت و معلول اور اسباب و مسببات کا قانون نافذ ہے۔ اس قانون کی رو سے ہر واقعہ کسی نہ کسی علت کا مرہونِ منت ہوتا ہے لہذا عام حالات میں یہ نا ممکن ہے کہ کوئی واقعہ کسی علت کے بغیر وقوع پذیر ہوسکے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ہمیں  کسی واقعہ کی علت معلوم نہ ہو لیکن یہ نا ممکن ہے کہ اس کی کوئی علت ہی نہ ہو۔

اسی طرح قانون اسباب و مسببات کی رو سے کوئی بھی مسبب یا واقعہ کسی سبب کی بنیاد پر پیش آتا ہے لہذا یہ نہںی ہوسکتا کہ کوئی واقعہ کسی سبب یا علت کے بغیر پیش آ جائے۔ یہ دونوں قوانین انسانی دنیا میں بھی اسی طرح عمل پیرا ہیں جس طرح طبیعی دنیا میں۔جیسے دھاتوں کا پگلنا، حرارت کا معلول ہے اسی طرح بیماریاں بھی اپنے مخصوص اسباب و عوامل  کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔

آجکل دنیا  "کرونا" نامی ایک ایسے وائرس سے دچار ہے جس کے سبب ہزاروں افراد موت کی آغوش میں پہنچ چکے ہیں؛ دوسری طرف ماہرین نے  اس وائرس اور بیماری کے تیزی سے پھیلاؤ کی ایک بنیادی خصوصیت (یعنی عوامی اجتماعات) کی نشاندہی بھی کی ہے؛ لہذا احتیاطی تدبیر کے طور پر  اس وائرس کے پھیلاؤ کے طریقوں کی نشاندہی کے بعد انہیں ترک کرنا عقلی تقاضا ہے  تا کہ اس وائرس اور بیماری کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ اور ماہرین کے مطابق اس کے پھیلاؤ کا ایک سبب عوامی اجتماعات میں شرکت ہے، چاہے وہ اجتماع دنیاوی ہو یا مذہبی۔

کوئی شک نہیں ہے کہ مساجد، حرم مکہ و مدینہ ، امام بارگاہیں اور ائمہ معصومین کے حرم بھی عوامی اجتماع کی جگہ ہیں، لہذا عوامی اجتماع ہونے کے لحاظ سے عام جگہوں کی طرح ان جگہوں پر بھی فطری طرز سے وائرس (اور اس کے نتیجہ میں بیماری) کا پھیلاؤ ممکن ہے۔ اس لئے  ضرورت اور مجبوری  کے تحت وائرس اور بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ایسی متبرک اور مقدس جگہوں  پر بھی عوامی اجتماعات کو روکنا ہی عقلی و شرعی تقاضا ہے۔

بعض عقیدتمند یہ تصور کرتے ہیں کہ جو  چیز بھی ائمہ معصومین^ سے مربوط ہو  اُسے اپنے فطری قانون (علت و معلول یا اسباب و مسببات) سے جدا ہونا چاہیے اور سب چیزوں کو معجزانہ طور سے حل ہو جانا چاہیے جبکہ ایسی سوچ سادہ اندیشی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ متبرک مقامات پر معجزانہ طور سے کوئی واقعہ انجام پانا اپنی جگہ حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں لیکن عام حالات میں متبرک مقامات پر بھی فطری قوانین ہی نافذ ہوتے ہیں؛ لہذا اگر کعبے کی چھت سے اگر کوئی وزنی اور سخت چیز کسی کے سر پر گرے تو وہ زخمی ضرور ہو گا؛ اگر ضریح کے پہلو میں کوئی شیشہ ٹوٹ جائے تو وہ  شیشہ لگنے والے کے ہاتھ کو ضرور کاٹے  گا؛ مسجد میں آگ لگے تو وہ ضرور جلائے گی؛  اگر مقدس ضریح کے پاس کوئی دہشت گرد بمب بلاسٹ کرے تو اس کے نتیجہ میں لوگ بھی مریں گے اور ضریح کو بھی نقصان پہنچے گا؛ کیونکہ یہ سب فطری قانون ہیں جن کا عام حالات (معجزانہ صورت کے بغیر) بدلنا ممکن نہیں ہے۔
 حتی اسی فطری قانون کی رو سے اگر کعبے پر بھی آگ برسی تو اس کا پردہ جل گیا اور کعبے کو بھی نقصان پہنچا۔ لہذا  متبرک مقامات پر قدرتی عوامل کے غیرمؤثر ہونے کی توقع رکھنا اور اسے توسل و تبرک جیسے عقائد سے مربوط کرنا ہرگز صحیح نہیں ہے۔

خود ائمہ معصومین نے بھی متعدد احادیث میں  بعض امور کے انجام دینے کی تاکید فرمائی ہے تا کہ ان کے فطری اثرات سے بچا جا سکے، جیسے کھانے  سے پہلے ہاتھ دھونے کی تاکید،  گندگی سے بچنے کی تاکید، صفائی رکھنے کی تاکید وغیرہ؛ ایسی تمام تاکیدات کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ انسان ان چیزوں کے فطری اثرات سے محفوظ رہ سکے۔

واضح رہے کہ خدا اور اُس کی برگزیدہ ہستیوں سے توسل اور ان سے شفا طلب کرنا  ایک الگ حقیقت ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جو کوئی بھی دعا اور توسل کرے تو اُسے "دوا" اور "احتیاطی تدابیر" اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی؛ بلکہ ماہر افراد کی تجویز کردہ "دوا" کا استعمال اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ایک عقلی معاملہ ہے  اور دعا و توسل ایک معنوی معاملہ ہے جن دونوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ اگر یہ دونوں چیزیں اکھٹی ہو جائیں تو  مثبت نتیجہ جلد متوقع ہو گا۔

بعض افراد کے ذہنوں میں یہ شبہ بھی پیدا ہوتا ہے  کہ مسجد میں نمازِ جماعت سے روکنا گویا نماز ہی سے روکنا ہے؛ اجتماعی قرآن خوانی  سے روکنا گویا قرآن پڑھنے سے روکنا ہے؛ حرم کے دروازے بند ہونا  گویا  توسل اور زیارت کا دروازہ بند ہونے کے مترادف ہے؛ جبکہ  معمولی غور کرنے سے ان شبہات کی حقیقت اور غلطی عیاں ہو جاتی ہے کہ عوامی اجتماعات سے روکنا، انفرادی عبادات  سے روکنے کے مترادف نہیں ہے لہذا نماز، توسل، زیارت اور دعا جیسے اعمال کو بیماری کے پھیلاؤ سے بچنے کے لئے انفرادی طور پر بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔

نیز یہ بات بھی مخفی نہ رہے کہ اسلامی روایات میں دینی اجتماعات میں شرکت کی تاکید مثلا مساجد میں نمازِ جماعت اور مسجدوں کو خالی نہ رکھنے یا معصومین کے حرم میں زیارت وغیرہ جیسے اعمال پر تاکید، عام حالات کے پیشِ نظر ہے لیکن اگر  ایسے اجتماعات میں شرکت سے اسلامی معاشرے کے وبائی امراض میں گرفتار ہونے کا خدشہ ہو تو ایسے ہنگامی حالات کے پیشِ نظر  اسلامی معاشرے کو وبائی امراض سے بچانے کی کوشش کرنا، دینی اجتماعات کے انعقاد پر فوقیت رکھتا ہے۔ اور اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ روایات میں لہسن اور پیاز کھا کر مسجد جانے سے روکا گیا ہے تا کہ دوسرے مسلمانوں کو منہ کی بدبو سے تکلیف نہ پہنچے، پس اگر کوئی شخص ایسی وبائی بیماری سے دچار ہو جس سے دوسرے مسلمانوں کے مبتلا ہونے کا خدشہ ہو تو اُسے مسجد وغیرہ جانے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟!!!   
ان دنوں میں جب کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچاؤ کے لئے اکثر دینی سرگرمیوں اور مذہبی پروگرامز کو معطل کر دیا گیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دینی و مذہبی عقائد کو فراموش کر دیا گیا ہے بلکہ تمام باشعور افراد بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ احتیاطی تدابیر کے بعد بھی جو چیز  دلوں کو سکون اور تسلی بخشتی ہے وہ صرف خدا اور معصومین ع سے توسل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ  ایران میں جب سے یہ وبا پھیلنا شروع ہوئی اُسی وقت سے شیعہ بزرگ علماء و فقہاء نے دو چیزوں پر تاکید کی ہے:

ا): خدا اور معصومین سے دعا و توسل کرنا؛

۲): ماہرین کے مطابق صحت کے اصولوں اور احتیاطی تدابیر کا لحاظ کرنا۔

واضح ہے کہ خدا سے  دعا، راز و نیاز اور معصومین سے توسل ایک الگ ذمہ داری ہے اور وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کے ساتھ ساتھ دوا کا استعمال ایک الگ ذمہ داری ہے لہذاکسی ایک ذمہ داری کی ادائیگی سے دوسری ذمہ داری ہرگز ساقط نہیں ہوتی۔

اگرچہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ائمہ معصومین  خدا کی دی ہوئی قدرت کے تحت بیماروں کو شفا یاب کر سکتے ہیں اور  اس طرح کے بہت سے واقعات دیکھے بھی گئے ہیں لیکن یہ عقیدہ اپنی جگہ ہے جبکہ قدرتی مسائل سے نمٹنے کی ذمہ داری اپنی جگہ ہے؛  لہذا اس عقیدہ کی بنیاد پر قدرتی مسائل سے نمٹنے کی ذمہ داری سے غفلت برتنا صحیح نہیں ہے۔

پس  ہم اگرچہ ائمہ معصومین کے ساتھ توسل اور اُن کے شفا دینے پر یقین رکھتے ہیں اور اسے مختلف بیماریوں کو مہار کرنے میں مؤثر سمجھتے ہیں لیکن وبائی امراض جیسے فطری مسائل میں ماہرین کے مطابق صحت کے اصولوں  اور احتیاطی تدابیر  کے لحاظ کرنے کا بھی انکار نہیں کرتے۔

اس بیان سے واضح ہے کہ وبا کے پھیلنے کے اندیشہ کی بنیاد پر مقدس مقامات میں عوامی اجتماعات نہ ہونے جیسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں عقلی  اور شرعی لحاظ سے کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی یہ چیز اسلامی عقائد و نظریات سے متصادم ہے۔

والسلام

تحریر: توقیر عباس کاظمی

نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .